خدا کی تلاش
خالق کائنات کی معرفت حاصل کیلئے ہم کیوں غور و فکر کرتے ہیں؟
اس وسیع و عریض کائنات کے بارے میں جاننے اور اس سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق ہم سب کے دلوں میں ہوتا ہے
یقیناً ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ
دلفریب ستاروں سے بھرا یہ بلند و بالا آسمان
دلکش مناظر سے بھری پڑی یہ وسیع زمین
یہ رنگ برنگی مخلوقات.خوبصورت پرندے.انواع واقسام کی مچھلیاں دریا و پہاڑ.پیارے پیارے پھول.کلیاں اور اسمان کی طرف بڑھے ہوئے مختلف درخت کیا یہ سب خود بخود وجود میں آگئے ہیں؟
یا یہ عجیب و غریب نقش و نگار کسی ماہر و توانا نقاش کے ذریعے کھینچے گئے ہیں؟
اسکے علاوہ ہم سب کے ذہنوں میں سب سے پہلے یہ سوالات بھی ابھرتے ہیں کہ
ہم کہاں سے آئے ہیں؟
کہاں سے؟اور کہاں جارے ہیں؟
اگر ہمیں ان تینوں سوالات کے صحیح جواب حاصل ہوجائیں تو یہ ہماری خوش نصیبی ہوگی یعنی ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ ہماری زندگی کا آغاز کہاں سے ہوا؟ آخرکار ہم کہاں جائیں گے؟ اور اب (یعنی اس جہان میں) ہمارے کیا فرائض ہیں؟
ہماری روح کا جذبہ تجسس ہمیں کیا کہتا ہے کہ
ان سوالات کے جواب تلاش کئے بغیر چین و آرام سے نہیں بیٹھنا!
مثال کے طور پر اگر کا کے کسی حادثے میں کوئی شخص زحمی اور بےہوش ہوجائے اور اسے علاج کیلئے ہسپتال لے جائے گے تو جب بھی اسکی؟ طبیعت کچھ بہتر ہوگی اور اسے ہوش آئگا تو سب سے پہلا سوال اپنے اردگرد موجود لوگوں پوچھے گا یہ کون سی جگہ ہے؟ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
اور یہاں سے کب واپس جاؤنگا؟
اس سے ظاھر ہے کہ انسان کے ذہن کے سوالوں کے جواب صرف ایک ہی بات میں ہیں کہ
یہ ساری کائنات اسی خالق نے پیدا کی ہے
س مثال سے ظاھر ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس قسم کے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور وہ انکا جواب حاصل کرنے کا خواہش مند رہتا ہے لھذا پہلی چیز خدا کی تلاش اور کائنات کے پیدا کرنے والے کی معرفت حاصل کرنے کیلئے ابھارتی ہے وہ ہماری اور کی تشنگی اور جستجو کا جذبہ ہے
شکر گزاری کا احساس
فرض کیجئے آپ کو یک دعوت میں مدعو کیا جاتا ہے اور آپکی پذیرائی کیلئے شاندار اہتمام کیا جاتا ہے لیکن چونکہ آپ کو آپ کے بڑے بھائی کے توسط سے مدعو کیا گیا ہے لھذا آپ میزبان سے واقف نہیں ہیں اس شایان شان اور دل پذیر محفل میں آنے کے بعد یقیناً آپ کی اولین خواہش یہی ہوگی کہ آپ اپنے میزبان سے واقفیت حاصل کریں تاکہ اسکا شکریہ ادا کرسکیں
ہم بھی جب وسیع و عریض کائیات پر ڈالتے ہیں اور خالق کائیات کی عطا کردہ انواع واقسام کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں مثلاً دیکھنے کے لئے آنکھیں،سننے کیلئے کان،سوچنے کے لئے عقل و شعور، مخطلف قسم کی جسمانی و ذہنی طاقیں اور صلاحیتیں، زندگی کی بے شمار سہولتیں اور آسائشیں اور پاک و پاکیزہ روزی تو بے ختیار یہ خیال آتا ہے کے ان تمام نعمتوں کے عطا کرنے والے کو پہچانیں کہ وہ کون ہے؟ اگر چہ اسے ہمارے شکریہ کی ضرورت نہیں مگر پھر بھی ہم کو چائیے کہ! اسکا شکریہ ادا کریں اور جب تک ہم اس کو نہیں بجاتے ہمیں بے چینی کا احساس رہتا ہے اور یہی امر ایک واضح دلیل ہے جو ہمیں خدا کی معرفت حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے
س مثال سے ظاھر ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس قسم کے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور وہ انکا جواب حاصل کرنے کا خواہش مند رہتا ہے لھذا پہلی چیز خدا کی تلاش اور کائنات کے پیدا کرنے والے کی معرفت حاصل کرنے کیلئے ابھارتی ہے وہ ہماری اور کی تشنگی اور جستجو کا جذبہ ہے
شکر گزاری کا احساس
فرض کیجئے آپ کو یک دعوت میں مدعو کیا جاتا ہے اور آپکی پذیرائی کیلئے شاندار اہتمام کیا جاتا ہے لیکن چونکہ آپ کو آپ کے بڑے بھائی کے توسط سے مدعو کیا گیا ہے لھذا آپ میزبان سے واقف نہیں ہیں اس شایان شان اور دل پذیر محفل میں آنے کے بعد یقیناً آپ کی اولین خواہش یہی ہوگی کہ آپ اپنے میزبان سے واقفیت حاصل کریں تاکہ اسکا شکریہ ادا کرسکیں
ہم بھی جب وسیع و عریض کائیات پر ڈالتے ہیں اور خالق کائیات کی عطا کردہ انواع واقسام کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں مثلاً دیکھنے کے لئے آنکھیں،سننے کیلئے کان،سوچنے کے لئے عقل و شعور، مخطلف قسم کی جسمانی و ذہنی طاقیں اور صلاحیتیں، زندگی کی بے شمار سہولتیں اور آسائشیں اور پاک و پاکیزہ روزی تو بے ختیار یہ خیال آتا ہے کے ان تمام نعمتوں کے عطا کرنے والے کو پہچانیں کہ وہ کون ہے؟ اگر چہ اسے ہمارے شکریہ کی ضرورت نہیں مگر پھر بھی ہم کو چائیے کہ! اسکا شکریہ ادا کریں اور جب تک ہم اس کو نہیں بجاتے ہمیں بے چینی کا احساس رہتا ہے اور یہی امر ایک واضح دلیل ہے جو ہمیں خدا کی معرفت حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے


0 Comments