کربلا پہنچنے کے وقت
 امام حسین علیہ السلام ک قافلہ اور لشکر حُر ایک دوسرے سے متوازی چلتے ہوئے ساتھ ساتھ آگئے بڑھتے رہے یہاں تک کہ (نینوا) کے مقام پر پھنچے یہاں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ایک مسلح شخص ان کے نزدیک آیا یہ شخص ابن زیاد کا قاصد تھا اور اس کی طرف سے حر کے نام ایک خط لے کر آیا تھا خط کا مضمون یہ تھا یہ خط پاتے ہی حسین کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور انہیں ایک ایسے بیابان میں اتر نے پر مجبور کردو جہان نہ پانی ہو اور نہ کوئی پناھ گاھ ((حر)) بے یہ خط امام علیہ السلام کو پڑھ کر سنایا اور انہیں اپنی اس ذمے داری سے مطلع کیا امام نےفرمایا ہمیں نینوا غاضریات یا شفیہ مین اتر کر قیام کرنے دو حر نے کہا؛ مین آپ کی اس تجویز کو قبول کرنے سے عاجز ہوں کیونکہ اب میں خود سے نہیں کرسکتا اس لئے کہ یہ قاصد ابن زیاد کا جاسوس بھی اور میرے تمام حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے اس دوران زہیر ابن قین نے امام کو مشورہ دیا کہ ہمارے لئے اس مختصر لشکر سے جنگ کرنا ان کے پیچھے آنے والے کثیر افراد سے جنگ کرنے کی نسبت زیادہ آسان ہے کیونکہ خدا کی قسم کچھ دیر میں ہی بہت بڑے لشکر ان کی مدد کو آ پہنچیں گے اور پھر ان سب کا مقابلہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا امام نے زہیر کے اس مشورے کے جواب میں فرمایا میں کبھی ان کے ساتھ جنگ میں پہل نہیں کروں گا اس کے بعد امام نے حر سے مخاطب ہوکر فرمایا بہتر ہے کہ کچھ اور آگے بڑھ کر ٹھہرنے کے لئے کسی مناسب جگہ کا انتخاب کرین حر نے آپ کی تجویز سے اتفاق کیا اور دونوں قافلے آگے بڑھنے لگے یہاں تک کہ کربلا پہنچ گئے یہاں پہنچ کر حر کے لشکر نے دیکھتے ہوئے کہ یہ جگہ ((فرات)) سے نزدیک ہے اور پڑاؤ کے لئے مناسب ہے اور امام کو مزید آگئے بڑھنے سے روک دیا امام حسین علیہ السلام نے یہاں اترنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اس جگہ کا نام دریافت کیا آپ کو بتایا گیا کہ اس جگہ کو طف کہتے ہیں امام نے پوچھا کیا اس کا کوئی اور نام بھی ہے عرض کیا گیا اسے کربلا بھی کہتے ہیں امام نے کربلا کا نام سنتے ہی فرمایا بارالہٰا! رنج و غم سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں پھر فرمایا یہی ہمارے ئھرنے کی جگہ ہے خدا کی قسم یہی ہماری قبروں کا مقام ہے خدا کی قسم ہم یہیں سے قیامت کے دن زندہ کئے اور اٹھائے جائیں گے میرے جدِامجد نے اسی کا وعدہ کیا تھا اور ان کا وعدہ کنھی جھوٹا نہیں ہوتا