سکینہ بنت حسین 
نام فاطمہ بنت حسین لقب سکینہ اور رقیہ ہے بیبی کی ولادت مدینے منورہ میں ہوئی اور والد گرامی حسین ابن l علی اور والدہ گرامی بیبی ام رباب ہے 
بیبی سکینہ کو امام حسین سے بہت پیار تھا اور بیبی کو بھی امام سے بیبی سکینہ کو اپنے سینے پر سولاتے تھے 
جب امام حسین علیہ السلام مدینے سے کربلا کا سفر شروع کیا تو امام کے ساتھ بیبی سکینہ بھی تھی اور علی اصغر جو کربلا کا سب سے چھوٹا شہید ہے بیبی کو اپنے اصغر سے بھی بہت پیار تھا 
امام کا قافلہ مدینے سے کربلا پہنچا تو 
2 محرم کو حر اپنے لشکر کے ساتھ حکم ملا کے امام کے قافلے کو روکو 
پھر 7 محرم کا سادات پر پانی بند ہوگیا 
پھر عاشور کا دن آگیا پیاس اور بڑھ گئی اور سارے اصحاب و انصار ایک ایک ہو کر شہید ہو گئے عباس کو جنگ پر جانے  کی اجازت نہیں تھی تو بیبی سکینہ نے اپنے بابا جان سے پانی لانے کی اجازت دلائی اور عباس ابن علی مشک سکینہ لیکے روانہ ہوئے اور عباس ابن علی لشکرے یزید کو یوں فرأت کے کنارے سے دور کیا جس طرح پانی اپنی جگہ بناتا ہے عباس مشکے سکینہ میں پانی بھر رہے تھے اور ادھر کم سن سکینہ اور دوسرے بچے پانی کا انتظار کرہے تھے
تو بس عباس نے پانی بھرلیا عباس خیموں کی طرف روانہ ہوئے بیبی سکینہ کی آس اور بڑھ گئی علم دور سے نظر آرہا تھا تو اتنی دیر ہوئی کے  تیروں کی برسات ہوئی ایک تیر دائیں بازوں میں لگی ور دوسری تیر بائین بازوں میں لگی تو علمدارے کربلا نے مشک کو منہ میں لیا تو ایک تیر  ایسا کے مشک میں لگی بس جیسے ہی پانی زمیں پر گرا تو عباس تو عباس پر بیبی سکینہ سلام اللہ علیہا کی بھی امید توٹ گئی یہ مصائب یہاں حتم نہیں ہوئے سکینہ پر ظلم ہوئے حسین علیہ السلام جنگ کے لجے ورانہ ہوئے ذولجناح پر سوار ہو ذوالجناح چلنے کا کہا ذولجنآح آگے نیہں چلا پھر وہی مولا نے کہا بس ذولجناح نے اپنی گردن سے نیچے کی طرف اشارہ کیا میرے مولا دیکھا یہ تو سکینہ ہے امام نے اس پھول سی بچی کو صبر کرنے کا کہا مولا نے کہا مین لوٹ آؤ گا امام روانہ ہوگئے اور مولا حسین رضائے الہی میں شہید ہوگئے 
بس عزادارو عاشور کا وقت ختم ہوئے جارہا تھا اور شام غریباً آرہی تھی شام کا بھی آگیا سادات کے خیموں کو لگائی گئ بیبوں کی چادریں لوٹی  گی سمر ملعون نے سکینہ بنت حسین کو تمچہ مارے اور کانوں سے بالیاں کینچ کر نکالے  اور قیدی بنا کر شام کی طرف روانہ ہوئے تو جب بیبیوں کو رسی سے باندھا گیا تو سب کو گردن سے نیچے باندی گی اور سکینہ کے گلے بس عزادارو گلے رسی تھی اور کربلا سے شام کا راستہ تھا سکینہ تھی اس بیبی کا حال اس رسی کی وجہ سے یہ تھا کہ کبھی سیدی کھٹی ہو جاتی اور کبھی رکوع کی طرح کمر جھوکا تی رہی چار سال کی عمر میں یتیم ہوگئی اور شام کا زندان آگیا زندانے شام میں بیٹھ کر روتی رہتی تھی بیبی کے اس رونے پر بھی پابندی گا دی بس عزادارو سکینہ کی یہ چار برس کی زندگی بیبی فاطمہ زھرا کی طرح ہو 13 صفر کا دن آیا سجاد نے اس یتیمہ کو اُس چولے میں دفن کیا جو کربلا سی پہن کر آئی تھی خوں میں تر سجاد نے یتیمہ کو شام کے زندان میں ہی دفن کردیا